(تر ہت نیوز ڈیسک)
دارالعلوم دیوبند کے طلباء کو انگریزی سیکھنے پر پابندی کے اعلان پر بڑھتے ہوئے تنازعہ کے درمیان، معروف اسلامی مدرسہ نے وضاحت کیا ہے کہ محکمہ تعلیم کے انچارج مولانا حسین احمد ہردواری کی طرف سے جاری کردہ سرکلر کو “غلط مفہوم اور جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے”۔ یوپی اقلیتی کمیشن اور نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کی طرف سے مدرسے کو نوٹسز کے بعد، پارٹی کے اقلیتی ونگ کے ایک سینئر بی جے پی لیڈر نے کہا ہے کہ وہ حقائق کی جانچ کے لیے مدرسے کا دورہ کریں گے۔
مغربی اتر پردیش میں بی جے پی کے اقلیتی ونگ کے انچارج جاوید ملک نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی چاہتے ہیں کہ مسلمان طلباء کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں لیپ ٹاپ ہو۔ بی جے پی تمام جدید تعلیم فراہم کر رہی ہے تاکہ مدرسے کے طلباء میں ترقی پسند نظریہ پیدا کیا جا سکے۔ تاہم، جو کچھ ہم سن رہےہیں، مدرسہ کی جانب سے طلباء کو کسی بھی زبان کی تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کی کوششیں قابل مذمت ہیں۔ ہم حقائق کی تصدیق کے لیے مدرسہ جائیں گے۔
دیوبند کے ناظم تعلیمات ہردواری نے اپنے سرکلر میں طلباء کو انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ کے دوران انگریزی پڑھنے سے منع کیا اور انہیں متنبہ کیا کہ خلاف ورزی کی وجہ سے انہیں نکال دیا جائے گا۔
ریاستی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اشرف سیفی نے کہا، “ہم نے دیوبند مدرسہ کے عہدیداروں کو 21 جون کو کمیشن کے لکھنؤ دفتر میں طلب کیا ہے۔
نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کے چیئرمین پریانک کاننگو نے صحافیوں کو بتایا کہ سہارنپور انتظامیہ کے اہلکاروں نے مدرسے کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی ہے۔
کاننگو نے کہا، یہ مجرم ہیں۔ اس سے قبل بھی ہم نے انہیں فتووں کے حوالے سے نوٹس جاری کیے تھے۔ اگر سہارنپور انتظامیہ نے مدرسہ کے خلاف تھوڑی سی بھی سخت کارروائی کی ہوتی تو حالات کچھ اور ہوتے۔
یوپی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اشرف سیفی نے کہا کہ انہوں نے سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ دنیش چندر کے ذریعے مدرسہ کو خط لکھا ہے۔
سہارنپور کے ضلع اقلیتی افسر بھرت لال گونڈ نے کہا کہ انہیں ابھی تک حکومت کی طرف سے معاملے کی تحقیقات کا کوئی حکم نہیں ملا ہے۔
دریں اثنا، دیوبند کے ترجمان مولانا ایس. راشدی نے زہر اگلنے والوں پر تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ دیوبند کے طلباء کے لیے بنائے گئے ایک سرکلر نے غیر ضروری تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ دیوبند پچھلے 15 سالوں سے انگریزی اور کمپیوٹر کورسز چلا رہا ہے۔ یہ سرکلر صرف ان طلباء کے لیے تھا جو دیوبند سے مفت تعلیم، رہائش اور طبی سہولیات حاصل کرتے ہیں اور فقہ اسلامی کی تعلیم کے لیے دیوبند میں داخلہ لیتے ہیں۔ وہ عام طور پر دوسرے مضامین کا مطالعہ کرنے کے لیے بیرونی عصری اداروں میں عارضی داخلہ لیتے ہیں۔ اس میں غلط کیا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ دانشوروں کا ایک طبقہ جان بوجھ کر پورے معاملے کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہا ہے۔ مدارس میں صرف 2 فیصد طلبہ کا داخلہ ہوتا ہے۔ آئین اقلیتوں کو زبان اور مذہب کی بنیاد پر تعلیمی ادارے قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے کچھ وزراء غیر ضروری طور پر تنازعہ پیدا کر رہے ہیں۔ نفرت پھیلانے والے ان بیانات کا مطلب اب محض سیاسی ہنگامہ برپا کرنا ہے اور کچھ نہیں۔