(تر ہت نیوز ڈیسک)
آج مسلمان جس تنزلی کا شکار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ہر محاذ پر ترقی کے بجائے تنزلی اس قوم کا مقدر بنتی جارہی ہے۔ معاشی اور اقتصادی میدان میں پیچھے، علم وعمل کے میدان میں پیچھے، اخلاق اقدار میں گراوٹ، یعنی ہرمحاذ پر یہ قوم تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ لیکن افسوس کہ اس تنزلی کے اسباب وعوامل کو تلاش کر اس سے نبرد آزما ہونے کے بجائے یہ قوم بس ایک ہی لا یعنی بات بولنے اور سننے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ وہ یہ کہ دنیا کی تمام قومیں مسلمانوں کی دشمن ہیں۔ جو سراسر غلط اور بے بنیاد ہیں۔ کوئی یہ بتائے کہ بھلا کون ساایسا ملک ہے جہاں مسلمانوں کو بزنس تجارت، نوکری یا مزدوری کرنے سے روکا جاتا ہے، کون سا ایسا ملک ہے جہاں مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اور ہاں ایسا کوئی ایک ملک بتائیں جہاں مسلمانوں کو اپنے اسلامی تعلیمات کے تحت بتائے گئے اخلاق کا مظاہرہ کرنے سے روکا جاتا ہو۔ ایسا کہیں نہیں ہے۔ تو پھر یہ قوم کس سازش کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے؟
دنیا کا ہر شخص اور اوردنیا کی ہرقوم خواہ وہ کسی مسلک ومذہب کا پاسدا ہو علم کو انسانیت کی معراج بتاتی ہے۔ اسلام نے تو علم پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ لیکن کیا مسلمان واقعی علم کو اپنے لئے اتنا ضروری سمجھتا ہے جتنا دیگر قومیں سمجھتی ہیں۔ تو اس کا جواب شاید افسوس ناک ہے۔
آئیے دیگر قوموں کو دیکھیں جو آج علم کی حصولیابی کے تئیں کتنی حساس ہے۔ اس کڑی میں ہم یوروپ کا رخ کرتے ہیں۔
انگلینڈ میں اسی لاکھ افراد لائبریری سے براہ راست کتابیں لیتے ہیں۔ برطانوی لائبریریوں میں نو کروڑ بیس لاکھ کتابیں ہیں۔ کل آبادی کا ساٹھ فیصد (کل آبادی چھ کروڑ ستر لاکھ) لائبریری کی ایکٹیو ممبرشپ رکھتا ہے۔ ہر سال آٹھ ہزار سے زائد نئی کتب کا اضافہ ہوتا ہے۔۔ علم دوست قومیں علم پر خرچ کرتی ہیں اور دنیا پر راج کرتی ہیں۔ یہ سارا خرچہ ہر فرد لاکھوں گنا زیادہ کر کے اپنے قوم کو واپس کرتا ہے اور بریٹن کو گریٹ بریٹن میں بدل ڈالتا ہے۔
علم کتابوں میں بند ہے اور اس معاملے میں ہماری عقل ہمیشہ سے بند ہے۔
جن کی ترجیح علم ہو عظمت خود بخود ان کے پاس دوڑی چلی آتی ہے۔ جن کی ترجیح ایف سولہ، ایٹم بم اور محض انا ہو وہ ہمیشہ گھاس کھاتے ہیں۔ تلواروں اور گھوڑوں کا دور چلا گیا اب ڈرون، اٹونومس ہتھیاروں اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا دور ہے۔ یہ سب علم کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ لائبریریوں کے جال بچھائیں گے اور ہم میزائل بنائیں گے۔ وہ یونورسٹیاں بنائیں گے اور ہم لنگرخانے بنائیں گے۔ وہ جوتے مارتے رہیں گے اور ہم کھاتے رہیں گے…
یونیسکو کے ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2003 کے مطابق دنیا بھر میں ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً ایک کتاب سے کم پڑھتا ہے وہیں ایک یورپین ایک سال میں اوسطاً پینتیس کتابیں پڑھتا ہے۔ دوسری طرف ایک اسرائیلی شہری ایک سال میں اوسطاً چالیس کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے۔
عرب تھاٹ فاؤنڈیشن کی کلچرل ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2011 اس سے بھی بدترین آکڑے دکھا رہی ہے اسکے مطابق ایک ایوریج یورپین سال میں دو سو گھنٹے مطالعہ کرتا ہے جبکہ ایک مسلمان اور عرب ایک سال میں اوسطاً چھ منٹ مطالعہ کرتا ہے.
وہیں دوسری طرف معیشت کے لئے تگ ودو اور طرز زندگی کی بات کریں تو اس میں بھی مسلمانوں کا رویہ دیگر قوموں سے برعکس ہے۔
۱۸۵۰ء کا دور دیکھئے دہلی کے مسلم شاہی قلعوں میں خواب گاہ جانے کا وقت تین یا چاربجے یعنی علی الصباح کا وقت ہے۔ وہیں انگریزوں کو دیکھیں تو چار بجے صبح تک تمام انگریز افسران یا دیگر لوگ نیند سے بیدار ہو چکے ہوتے تھے۔ صبح کےسات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہوتے تھے، ہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہوتا تھا، کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا جواب دیا جا چکا ہوتا تھا، بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہوتا تھا، دن کے ایک بجے سرمٹکاف بگھی پر سوار ہو کر وقفہ کرنے کیلئے گھر کی طرف چل پڑتے تھے، یہ ہے وہ وقت جب لال قلعہ کے شاہی محل میں ”صبح” کی چہل پہل شروع ہو تی تھی، کیونکہ ظل الٰہی کے ساتھ ساتھ دیگر عمائدین صبح صادق کے وقت اپنے اپنے خواب گاہوں کو گئے تھے۔ جولوگ صبح صادق کے وقت سونے گئے تھے بلا شبہ ان کے جگنے کا وقت دو پہر تک کا ہی ہوگا۔
اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعہ میں ناشتے کا وقت اور دہلی کے برطانوی حصے میں دوپہر کے لنچ کا وقت ایک ہی تھا۔
اب 2018ء میں آتے ہیں پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے پورے یورپ امریکہ جاپان آسٹریلیا اورسنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں۔
آجکل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکا ہے پوری قوم صبح چھ سے سات بجے ناشتہ اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہے۔
اللہ کی سنت کسی کیلئے نہیں بدلتی اسکا کوئی رشتہ دار نہیں، جو محنت کریگا وہ کامیاب ہوگا عیسائ ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائیگا تو دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو’ ناکام رہے گا بدر میں فرشتے نصرت کیلئے اتارے گئے تھے لیکن اس سے پہلے مسلمان پانی کے چشموں پر قبضہ کر چکے تھے جو آسان کام نہیں تھا۔
آج بھی اکثروبیشتر مسلمانوں کے طرز زندگی کا یہی حال ہے۔ رات کو بلا وجہ جگنا، صبح دوپہر تک سونا، اور علم سے دور بھاگنا، معیشت کے حصول میں سستی اور کاہلی برتنا ان کا شیوہ بن گیا ہے۔ اور پھر یہ کہنا کہ آج پوری دنیا مسلمانوں کی دشمن بن چکی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچی جارہی ہیں۔ افسوس تو تب ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اول صف میں کھڑے نام نہاد تعلیم یافتہ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ مسلمانوں کے خلاف کہیں کوئی شازش نہیں رچی جارہی ہے۔ ہم اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے بے جا الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح کوئی جاہل شخص یہ کہتا ہے کہ شاید ہمارے کسی پڑوسی نے کوئی ٹوٹکا کردیا ہے اس وجہ سے ہمارے گھر میں برکت نہیں ہوتی۔ جب کہ اس شخص کی حقیقت یہ ہوتی ہے کہ آمدنی اٹھنی اور خرچہ روپیا۔